حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ جب ظالم یزیدیوں نے حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا سرِاقدس نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالاخانہ پر تھا‘ جب سرمبارک میرے سامنے سے گزرا تو
سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کنیت ابوعبداللہ اور نام نامی ’’حسین‘‘ اور لقب ’’سبط الرسول‘‘ و ’’ریحانۃ الرسول‘‘ ہے۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری جمعہ کے دن کربلا کے میدان میں یزیدی ستم گروں نے انتہائی بیدردی کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو شہید کردیا۔ (اکمال ص560)
کنوئیں سے پانی ابل پڑا: ابوعون کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے راستے میں ابن مطیع کے پاس سے گزر ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے ابن رسول! میرے اس کنوئیں میں پانی بہت کم ہے اس میں ڈول بھرتا نہیں۔ میری ساری تدبیریں بیکار ہوچکی ہیں۔ کاش! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہمارے لیے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کنوئیں کا پانی منگوایا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ڈول سے منہ لگا کر پانی نوش فرمایا۔ پھر اس ڈول میں کلی فرمادی اور حکم دیا کہ سارا پانی کنوئیں میں انڈیل دیں جب ڈول کا پانی کنوئیں میں ڈالا تو نیچے سے پانی ابل پڑا‘ کنوئیں کا پانی بہت زیادہ بڑھ گیا اور پانی پہلے سے بہت زیادہ شیریں اور لذیذ ہوگیا۔ (ابن سعد 5، ص144)
بے ادبی کرنے والاآگ میں: میدان کربلا میں ایک بے باک اور بے ادب مالک بن عروہ نے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خیمہ کے گرد خندق میں آگ جلتی ہوئی دیکھی تو اس بدنصیب نے یہ کہا کہ اے حسین! (نعوذ باللہ) تم نے آخرت کی آگ سے پہلے ہی یہاں دنیا میں آگ لگالی؟ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایاکہ اے ظالم! کیا تیرا گمان ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گا؟ پھر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے مجروح دل سے یہ دعا مانگی کہ ’’یااللہ! تو اس بدنصیب کو نارجہنم سے پہلے دنیا میں بھی آگ کے عذاب میں ڈال دے‘‘ امام عالی مقام کی دعا ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ فوراً ہی مالک بن عروہ کا گھوڑا پھسل گیا اور یہ شخص اس طرح گھوڑے سے گر پڑا کہ گھوڑے کی رکاب میں اس کا پاؤں الجھ گیا اور گھوڑا اس کو گھسیٹتے ہوئے خندق کی طرف لے بھاگا اور یہ شخص خیمہ کے گرد خندق کی آگ میں گر کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ (روضۃ الشہداء ص169)۔نیزہ پر سرِ اقدس کی تلاوت: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ جب ظالم یزیدیوں نے حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا سراقدس کو نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالاخانہ پر تھا‘ جب سرمبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سر اقدس نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب ظالم یزیدیوں نےسرمبارک کو نیزہ سے اتار کر ابن زیاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مقدس ہونٹ مبارک ہل رہے تھے اور زبان اقدس پر اس وقت اس آیت کی تلاوت جاری تھی:۔ ۔سخاوت ہو تو ایسی ہو: ایک مرتبہ ایک انتہائی غریب اور ضرورت مند شخص حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور دست سوال دراز کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فرمایا: ’’اپنی والدہ محترمہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اباجان نے آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کو جو چھ درہم دئیے تھے ان میں سے ایک درہم دے دو‘‘حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ گئےاور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور عرض کیا: ’’ وہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے یہ چھ درہم آٹے کیلئے رکھے ہیں‘‘ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صادق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی نعمتوں اور خزانوں پر اپنی چیزوں سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ نہ کرے‘‘ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حکم فرمایا: ’’اپنی والدہ محترمہ سے جاکر کہو کہ چھ کے چھ درہم بھیج دیں۔‘‘ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے وہ چھ کے چھ درہم بھیج دئیے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس فقیر کو عطا فرمادئیے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ابھی اس مجلس سے اٹھے بھی نہ تھے کہ ایک آدمی آیا جس کے پاس ایک اونٹ تھا‘ وہ اس کو بیچنا چاہتا تھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس سے اونٹ کی قیمت دریافت کی‘ اس نے کہا: ’’ایک سو چالیس درہم‘ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسے کہا کہ ’’اس اونٹ کو یہیں باندھ دو میں بعد میں آپ کو اس کی قیمت ادا کردوں گا۔‘‘ چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور واپس چلا گیا تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا : ’’یہ اونٹ کس کا ہے؟‘‘ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: ’’میرا ہے‘‘ اس شخص نے کہا کہ ’’کیا آپ اس کو بیچیں گے؟‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مثبت جواب دیا۔ اس شخص نے اس کی قیمت دریافت کی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: ’’دو سو درہم میں بیچوں گا‘‘ چنانچہ وہ شخص اس قیمت پر راضی ہوا اور اونٹ خرید کر دو سو درہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے حوالہ کیے اور اونٹ لے کر چلا گیا پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک سو چالیس درہم اس آدمی کو دئیے جس سے اونٹ خریدا تھا اور باقی ساٹھ درہم لے کر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچ گئے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ان دراہم کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺ کی زبان سے یہ وعدہ کیا تھا: ترجمہ:’’جو ایک نیکی لائے گا اس کو دس گنا ملے گا‘‘(بحوالہ: مائۃ قصۃ من حیاۃ علیؓ‘ ص12)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں